دریدہ پیرہنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے
مگر وہ اور سبب تھا یہ اور قصہ ہے
یہ رات اور ہے وہ رات اور تھی جس میں
ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تھیں
عجیب لذت نظارہ تھی حجاب کے ساتھ
ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ
یہی حیات گریزاں بڑی سہانی تھی
نہ تم سے رنج نہ اپنے سے بد گمانی تھی
شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ محرومی
تمہارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی
تمہارا عہد اگر استوار ہی ہوتا
تو پھر بھی دامن دل تار تار ہی ہوتا
خود اپنی ذات ہی ناخن خود اپنی ذات ہی زخم
خود اپنا دل رگ جاں اور خود اپنا دل نشتر
فساد خلق بھی خود اور فساد ذات بھی خود
سفر کا وقت بھی خود جنگلوں کی رات بھی خود
تمہاری سنگ دلی سے خفا نہیں ہوتے
کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ہوتے
نظم
فساد ذات
مصطفی زیدی