EN हिंदी
فرجام | شیح شیری
farjam

نظم

فرجام

صادق

;

تم مری کھوج میں
یوں ہی تاریک غاروں مٹھوں معبدوں خانقاہوں میں

گھٹ گھٹ کے مر جاؤ گے
میں نہیں مل سکوں گا تمہیں اب کبھی

دھرم میں سنگھ میں دھیان میں گیان میں
نیلے ساگر کی تہہ میں اتر کر

برازیل کے جنگلوں میں بھٹک کر
ہمالہ کی چوٹی پہ چڑھ کر

مجھے تم نہ آواز دو
پاس کو تیاگ کر

آس کے بام پر
میری آمد کے لیکن رہو منتظر

میں ضرور آؤں گا
سوکھ کر وقت جس دن تڑا جائے گا

دودھ کی طرح آکاش پھٹ جائے گا
دن کے ٹکڑے زمیں پر بکھر جائیں گے

رات کے سر کا ہر بال جھڑ جائے گا
چاند سورج سما جائیں گے جب مرے گربھ میں

اور سارا اجالا پگھل کر اندھیرے میں بہہ جائے گا
بس اسی وقت تم ہانپتے کانپتے

نصف لمحے کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے
خوف کے کواڑے سے جھانک کر دیکھ لو گے مجھے

اور میں
منہ سے اک قہقہہ تھوک کر

سور منڈل سے باہر نکل آؤں گا
اس دھراتل کو کھا لوں گا

سارے سمندر کو پی جاؤں گا
اور پھر دیکھتے دیکھتے

آکسیجن میں تبدیل ہو جاؤں گا
ان خلاؤں کے ساگر میں کھو جاؤں گا