کہاں ہو غالبوؔ، میروؔ نظیروؔ
کہاں ہو میری زلفوں کے اسیرو
میری صہبا کے پیمانو، کہاں ہو
کہاں ہو میرے دیوانو کہاں ہو
کہاں ہو عالمو مسند نشینو
مرے خوان عطا کے ریزہ چینو!
صلہ کچھ تو وفا کا دو کہاں ہو
کہاں ہو میرے شہزادو کہاں ہو
کہاں ہو اے مرے در کے گداؤ
کم از کم اپنی صورت تو دکھاؤ
کہ میں لاچار ہو کر رہ گئی ہوں
بہت بیمار ہو کر رہ گئی ہوں
کہاں ہو اے قلم کارو، جیالو؟
مجھے کرسی نشینوں سے بچا لو
یہ مجھ سے دور ہوتے جا رہے ہیں
بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں
مری روٹی پہ ہوتا ہے گزارا
مگر چھوڑا ہے مجھ کو بے سہارا
صلہ اپنی وفا کا پا چکی ہوں
میں ان کے گھر سے راندی جا چکی ہوں
حقیقت ہے کہ میں اس کی امیں ہوں
یہ گھر میرا ہے لیکن میں نہیں ہوں
مرے ہی نام سے عہدہ ملا ہے
مرے صدقے میں ان کا طنطنہ ہے
مگر یہ مجھ کو کھاتے جا رہے ہیں
مری ہستی مٹاتے جا رہے ہیں
سہاگن تھی ابھاگن ہو گئی ہوں
میں در در کی بھکارن ہو گئی ہوں
نظم
فریاد (فریادی آشنا ہے)
قیصر صدیقی