EN हिंदी
فرہاد | شیح شیری
farhad

نظم

فرہاد

مصطفی زیدی

;

اس سے ملنا تو اس طرح کہنا
تجھ سے پہلے مری نگاہوں میں

کوئی روپ اس طرح نہ اترا تھا
تجھ سے آباد ہے خرابۂ دل

ورنہ میں کس قدر اکیلا تھا
تیرے ہونٹوں پہ کوہسار کی اوس

تیرے چہرے پہ دھوپ کا جادو
تیری سانسوں کی تھرتھراہٹ میں

کونپلوں کے کنوار کی خوشبو
وہ کہے گی کہ ان خطابوں سے

اور کس کس پہ جال ڈالے ہیں
تم یہ کہنا کہ پیش ساغر جم

اور سب مٹیوں کے پیالے ہیں
ایسا کرنا کہ احتیاط کے ساتھ

اس کے ہاتھوں سے ہاتھ ٹکرانا
اور اگر ہو سکے تو آنکھوں میں

صرف دو چار اشک بھر لانا
عشق میں اے مبصرین کرام

یہی تکنیک کام آتی ہے
اور یہی لے کے ڈوب جاتی ہے