(1)
ناگہاں شور ہوا
لو شب تار غلامی کی سحر آ پہنچی
انگلیاں جاگ اٹھیں
بربط و طاؤس نے انگڑائی لی
اور مطرب کی ہتھیلی سے شعاعیں پھوٹیں
کھل گئے ساز میں نغموں کے مہکتے ہوئے پھول
لوگ چلائے کہ فریاد کے دن بیت گئے
راہزن ہار گئے
راہرو جیت گئے
قافلے دور تھے منزل سے بہت دور مگر
خود فریبی کی گھنی چھاؤں میں دم لینے لگے
چن لیا راہ کے ریزوں کو خذف ریزوں کو
اور سمجھ بیٹھے کہ بس لعل و جواہر ہیں یہی
راہزن ہنسنے لگے چھپ کے کمیں گاہوں میں
ہم نشیں یہ تھا فرنگی کی فراست کا طلسم
رہبر قوم کی ناکارہ قیادت کا فریب
ہم نے آزردگئی شوق کو منزل جانا
اپنی ہی گرد سر راہ کو محمل جانا
گردش حلقۂ گرداب کو ساحل جانا
اب جدھر دیکھو ادھر موت ہی منڈلاتی ہے
در و دیوار سے رونے کی صدا آتی ہے
خواب زخمی ہیں امنگوں کے کلیجے چھلنی
میرے دامن میں ہیں زخموں کے دہکتے ہوئے پھول
خون میں لتھڑے ہوئے پھول
میں جنہیں کوچہ و بازار سے چن لایا ہوں
قوم کے راہبرو راہزنو
اپنے ایوان حکومت میں سجا لو ان کو
اپنے گلدان سیاست میں لگا لو ان کو
اپنی صد سالہ تمناؤں کا حاصل ہے یہی
موج پایاب کا ساحل ہے یہی
تم نے فردوس کے بدلے میں جہنم لے کر
کہہ دیا ہم سے گلستاں میں بہار آئی ہے
چند سکوں کے عوض چند ملوں کی خاطر
تم نے ناموس شہیدان وطن بیچ دیا
باغباں بن کے اٹھے اور چمن بیچ دیا
(2)
کون آزاد ہوا؟
کس کے ماتھے سے سیاہی چھوٹی
میرے سینے میں ابھی درد ہے محکومی کا
مادر ہند کے چہرے پہ اداسی ہے وہی
خنجر آزاد ہیں سینوں میں اترنے کے لیے
موت آزاد ہے لاشوں پہ گزرنے کے لیے
چور بازاروں میں بد شکل چڑیلوں کی طرح
قیمتیں کالی دکانوں پہ کھڑی رہتی ہیں
ہر خریدار کی جیبوں کو کترنے کے لیے
کارخانوں پہ لگا رہتا ہے
سانس لیتی ہوئی لاشوں کا ہجوم
بیچ میں ان کے پھرا کرتی ہے بیکاری بھی
اپنا خونخوار دہن کھولے ہوئے
اور سونے کے چمکتے سکے
ڈنک اٹھائے ہوئے پھن پھیلائے
روح اور دل پہ چلا کرتے ہیں
ملک اور قوم کو دن رات ڈسا کرتے ہیں
روٹیاں چکلوں کی قحبائیں ہیں
جن کو سرمایہ کے دلالوں نے
نفع خوری کے جھروکوں میں سجا رکھا ہے
بالیاں دھان کی گیہوں کے سنہرے خوشے
مصر و یونان کے مجبور غلاموں کی طرح
اجنبی دیس کے بازاروں میں بک جاتے ہیں
اور بد بخت کسانوں کی بلکتی ہوئی روح
اپنے افلاس میں منہ ڈھانپ کے سو جاتی ہے
ہم کہاں جائیں کہیں کس سے کہ نادار ہیں ہم
کس کو سمجھائیں غلامی کے گنہ گار ہیں ہم
طوق خود ہم نے پہنا رکھا ہے ارمانوں کو
اپنے سینے میں جکڑ رکھا طوفانوں کو
اب بھی زندان غلامی سے نکل سکتے ہیں
اپنی تقدیر کو ہم آپ بدل سکتے ہیں
(3)
آج پھر ہوتی ہیں زخموں سے زبانیں پیدا
تیرہ و تار فضاؤں سے برساتا ہے لہو
راہ کی گرد کے نیچے سے ابھرتے ہیں قدم
تارے آکاش پہ کمزور حبابوں کی طرح
شب کے سیلاب سیاہی میں بہے جاتے ہیں
پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن
سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں
نظم
فریب
علی سردار جعفری