EN हिंदी
فردا | شیح شیری
farda

نظم

فردا

جاوید کمال رامپوری

;

زمانہ ساتھ چلا ہے تو ساتھ غم بھی چلے
حیات و موت کے رشتہ میں ایک اور گرہ

افق کے پاس سیاہی کی سرحدوں سے دور
شفق کی گود میں کرنوں کی سانس ٹوٹ گئی

تھکے تھکے سے مسافر ادھار کی پونجی
جو کائنات کے ورثے کی اک خیانت ہے

چلے ہیں لے کے کسی شاہراہ کی جانب