EN हिंदी
فرار کی پہلی رات | شیح شیری
farar ki pahli raat

نظم

فرار کی پہلی رات

قتیل شفائی

;

نوجوان کون ہے تو
آیا ہے کس نگری سے

نام کیا ہے ترا
کیا کام ہے آخر مجھ سے

میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مناسب نہیں آنا تیرا
تو نے کس زعم میں اس وقت پکارا ہے مجھے

تو نے کیا سوچ کے دستک دی ہے
آج کی شب مرے سوئے ہوئے دروازے پر

نوجواں کون ہے تو
نوجواں جو بھی ہے تو

فیصلہ سوچ سمجھ کر یہ کیا ہے میں نے
لاکھ دستک کوئی دے آج کی رات

گھر کا دروازہ کسی پر بھی نہ اب کھولوں گا
چاہے مہمان ہو یا کوئی ہوا کا جھونکا

سچ تو یہ ہے کہ مجھے
اب تو ان تازہ ہواؤں سے بھی ڈر لگتا ہے

نوجواں ٹھیک سہی
تو مجھے جانتا ہے میں بھی تجھے جانتا ہوں

تھی ملاقات تری اور مری آج سے برسوں پہلے
لیکن اب اس کا یہ مطلب تو نہیں

تو سمجھ کر مجھے ہم عمر اپنا
جب بھی چاہے مرے دروازے پہ دے کر دستک

رت جگے مل کے منانے کے لئے
مجھ کو بلانے آ جائے

جا میاں اور کہیں مجھ کو پریشان نہ کر