یہ خیرات ہی کی کرامت ہے آقا
یہ پردے ہٹا دے
بڑے بادشاہوں کی سنگت ہے
سالانہ خیرات کا معاملہ ہے
تو تمغے سجا میرے آقا تری حاضری ہے
وہ تمغے جو مشرق کے ملبوس پر طنز ہیں
وہ تمغے جہادوں کے جن کے پتے جیل خانوں میں فریاد خواں ہیں
وہ جنگیں نشاں جن کے سرحد کے اندر کہیں دفن ہیں
یہ خیرات ہی کی کرامت ہے
اترن سے مانوس ماحول میں
ریت ایسی چلی ہے کہ ہر مرحلے فکر میں
صرف امداد امداد کی گڑگڑاتی صدا ہے
ہر اک فرد خیرات کے شوق میں سرگراں ہے
یہ پردے ہٹا میرے آقا
کہ تو بھی فقیر اور میں بھی
نظم
فقیروں کی بستی
ابرارالحسن