فقط حصے کی خاطر
کٹ گئی یہ زندگی میلاد سننے میں
بلا جانے کہ حصہ ہے تو کیسا اور کتنا
یہ سب آساں نہیں تھا
گلاب اور عطر سے بھاری فضا میں سانس لینا
دیر تک آساں نہیں تھا
نہ آساں تھا سمجھنے کی اداکاری بھی کرنا
اس زباں کو
جس سے میں نا آشنا تھا اور وو بھی با ادب رہ کر
بہت بھاری تھا بیلے کا وہ گجرا
جو پہنایا گیا تھا مجھ کو اگلی صف میں بٹھانے سے پہلے
ہاں سزا جیسا تھا میرا بیٹھنا اس صف میں
جس میں ایک بھی بچہ نہیں تھا
اور جہاں سے دور تھیں سب چلمنیں
اور ان سے چھنتی رونقیں
یہ سب قربانیاں دے کر اگر حصے کی خواہش ہے مجھے تو کیا غلط ہے
مرے حصے کی خواہش پر ہنسو مت
مرا حصہ تو پکا ہے اگر میں سو بھی جاؤں
خدا کو سب پتا ہے
نظم
فقط حصے کی خاطر
شارق کیفی