EN हिंदी
فیض | شیح شیری
faiz

نظم

فیض

عادل منصوری

;

اب نہ زنجیر کھڑکنے کی صدا آئے گی
زنداں مہکے گا نہ اب باد صبا آئے گی

ایک ایک پھول کے مرجھائے ہوئے چہرے پر
رنگ بکھریں گے نہ کھلتا ہوا موسم کوئی

خار کے سینے میں چبھتا ہوا پھر غم کوئی
آندھی پھر تیز ہے تاروں کو بجھا دے نہ کہیں

رات گھنگھور ہے سورج کو چھپا دے نہ کہیں
اور اب شعلۂ جاں سے بھی نہ اٹھے گا دھواں

تیرگی میں تری سانسوں کا اجالا بھی کہاں
چشم نرگس میں لہو رنگ ہے شبنم شاید

اور صیاد کا دامن بھی تو ہے نم شاید