ایک دنیا بڑے کمال کی ہے
لمحہ لمحہ نئے سوال کی ہے
مہ وشوں کے جمال کی دنیا
جذبۂ اتصال کی دنیا
جھوٹ اور سچ کا بے سرا سنگم
ایک دنیا خیال پر قائم
جس کو میں چھوڑنا اگر چاہوں
اس سے منہ موڑنا اگر چاہوں
حسرتوں پر زوال آئے گا
حرف جاں پر سوال آئے گا
اب تو چہرے یقیں سے آگے ہیں
مستقل اعتبار کس کا ہے
ہو گیا کتنا فیس بک کا چلن
جی میں آتا ہے توڑ دوں درپن
روشنی ساتھ جب نہیں دیتی
تیرگی مات جب نہیں دیتی
آؤ پرچھائیوں سے بات کریں
انگلیاں شغل کائنات کریں
نظم
فیس بک
خورشید اکبر