تم نے فاصلوں کی بات سمجھ لی تو تمہیں یاد آئے گا
کہ فنا ہم سب کی تقدیر ہے
تمہیں معلوم ہے؟ تمہارے
گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے ہزار بار
چپ چاپ
زینے کی سفید دیواروں پہ انگلیاں پھیری ہیں
اس امید میں کہ شاید لمس کے
ایسے ذائقے وہاں رہ جائیں جو تم ہمیشہ
بدن کے گنجلک اور بے لفظ
ذائقوں کی طرح پہچان سکو
اور یاد رکھو
اب سمجھ میں آنے لگا ہے
کہ کوئی نظم کبھی عشق اور درد کی اصل ضروریات
پوری نہیں کرتی
کہ عشق موت کے خلاف ہتھیار نہیں
کہ ہمارے لفظ ہمارے مقاصد سے نا آشنا ہیں
کہ مجھے چاہت اس شخص کی ہے جو تم ہو
کہ میں مکمل طور پہ تمہیں
کبھی نہ جان پاؤں گا
اور تم نے یہ تمام مدت
خود اپنے مفہوم کی تلاش میں سلگتے پگھلتے
گزاری ہے

نظم
فاصلوں کی بات
اعجاز احمد اعجاز