پہلے ہم زندگی کو ٹکڑوں میں
تقسیم کرتے ہیں
اور پھر
ان ٹکڑوں کو رکھ کر
بھول جاتے ہیں
یہ بھول ہمارے جسم کو
ایک جال میں لپیٹ لیتی ہے
کون سا ٹکڑا
کہاں رکھا تھا
جس کی ضرورت پڑتی ہے
وقت پر وہ نہیں ملتا
ہم ساری زندگی
ضرورت کے وقت
اپنی زندگی کے ٹکڑے
تلاش کرتے رہتے ہیں
لیکن
بے ترتیبی اور بھول بھلیاں
جاری رہتی ہیں
زندگی گزر جاتی ہے
اور گزر جانے کے بعد
ٹکڑے آپس میں مل جاتے ہیں
یا کوئی دوسرا انہیں جمع کر لیتا ہے
نظم
ٹکڑوں میں بٹی ہوئی زندگی
عذرا عباس