اگر مجھے ایک زندگی
اور مل جائے
تو میں اپنے سفر کو
اپنے اسباب کے ساتھ
باندھ کر رکھوں
ایک پرندے کی طرح
پانیوں سے ٹکراتی ہوئی
آنکھ سے اوجھل ہو جاؤں
ایک ایسے درخت کی طرح
جو ساری عمر
دھوپ اور چھاؤں کا مزا لیتا ہے
ایک ایسے بنجارے کی طرح
جو پہاڑوں اور میدانوں کو
اپنے قدموں کی دھول میں
سمیٹ لیتا ہے
کسی ایسی رقاصہ کی طرح
جو اپنے من کا بوجھ
اپنے جسم پر ڈال دیتی ہے
کسی ایسی جنگ میں شریک ہو کر
جو بھوک اور نفرت کے خلاف
لڑی جا رہی ہو
ماری جاؤں

نظم
ایک زندگی اور مل جائے
عذرا عباس