EN हिंदी
ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی | شیح شیری
ek zanjir-e-girya mere sath thi

نظم

ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

رفیق سندیلوی

;

میں گیا اس طرف
جس طرف نیند تھی

جس طرف رات تھی
بند مجھ پر ہوئے سارے در

سارے گھر
میں گیا اس طرف

جس طرف تیر تھے
جس طرف گھات تھی

مجھ پہ مرکوز تھی اک نگاہ سیہ
اور عجب زاویے سے

بنائے ہوئے تھی مجھے
سر سے پا تک ہدف

میں گیا اس طرف
جس طرف ریت کی لہر تھی

موج ذرات تھی
میں نہیں جانتا

اس گھڑی
تیرگی کے طلسمات میں

جو اشارہ ہوا
کس کی انگلی کا تھا

اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر
کون سی بات تھی

صرف اتنا مجھے یاد ہے
جب میں آگے بڑھا

ایک زنجیر گریہ مرے ساتھ تھی
میں پرندہ بنا

میری پرواز کے دائرے نے جنا
ایک سایہ گھنا

کشف ہونے لگا
میں ہرے پانیوں میں

بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لا تعین سبک نیند سونے لگا

اک اڑن طشتری بن گئی سائباں
میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں

ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف
میں گیا اس طرف

جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی

جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم

درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی