تم نے دیکھی ہے کبھی ایک زن خانہ بدوش
جس کے خیمے سے پرے رات کی تاریکی میں
گرسنہ بھیڑیے غراتے ہیں
دور سے آتی ہے جب اس کی لہو کی خوشبو
سنسناتی ہیں درندوں کی ہنسی
اور دانتوں میں کسک ہوتی ہے
کہ کریں اس کا بدن صد پارہ
اپنے خیمے میں سمٹ کر عورت
رات آنکھوں میں بتا دیتی ہے
کبھی کرتی ہے الاؤ روشن
بھیڑیے دور بھگانے کے لیے
کبھی کرتی ہے خیال
تیز نکیلا جو اوزار کہیں مل جائے
تو بنا لے ہتھیار
اس کے خیمے میں بھلا کیا ہوگا
ٹوٹے پھوٹے ہوئے برتن دو چار
دل کے بہلانے کو شاید یہ خیال آتے ہیں
اس کو معلوم ہے شاید نہ سحر ہو پائے
سوتے بچوں پہ جمائے نظریں
کان آہٹ پہ دھرے بیٹھی ہے
ہاں دھیان اس کا جو بٹ جائے کبھی
گنگناتی ہے کوئی بسرا گیت
کسی بنجارے کا
نظم
ایک زن خانہ بدوش
فہمیدہ ریاض