EN हिंदी
ایک ویران گاؤں میں | شیح شیری
ek viran ganw mein

نظم

ایک ویران گاؤں میں

زاہد ڈار

;

انہی سوکھے ہوئے میدانوں میں
اب جہاں دھوپ کی لہروں کے سوا کچھ بھی نہیں

سبز لہراتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے
لوگ آباد تھے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں

محفلیں جمتی تھیں افسانے سنے جاتے تھے
آج ویران مکانوں میں ہوا چیختی ہے

دھول میں اڑتے کتابوں کے ورق
کس کی یادوں کے ورق کس کے خیالوں کے ورق

مجھ سے کہتے ہیں کہ رہ جاؤ یہیں
اور میں سوچتا ہوں صرف اندھیرا ہے یہاں

پھر ہوا آتی ہے دیوانی ہوا
اور کہتی ہے: نہیں صرف اندھیرا تو نہیں

یاد ہیں مجھ کو وہ لمحے جن میں
لوگ آزاد تھے اور زندہ تھے

آؤ میں تم کو دکھاؤں وہ مقام.....
ایک ویران جگہ اینٹوں کا انبار نہیں کچھ بھی نہیں

اور وہ کہتی ہے یہ پیار کا مرکز تھا کبھی
کس کی یاد آئے مجھے کس کی بتاؤ کس کی!

اور اب چپ ہے ہوا چپ ہے زمیں
بول اے وقت! کہاں ہیں وہ لوگ

جن کو وہ یاد ہیں جن کی یادیں
ان ہواؤں میں پریشان ہیں آج