EN हिंदी
ایک وجودی دوست کے نام | شیح شیری
ek wajudi dost ke nam

نظم

ایک وجودی دوست کے نام

سرمد صہبائی

;

تم نے جتنے بھی بدلے تھے اپنے آپ سے اور پھر اپنے جیسوں سے
اک اک کر کے پورے دل سے چکا بھی لیے ہیں

اپنے آپ سے گتھم گتھا ہونے میں ہی سب جنگوں کی لذت ہے
لذت، جس کا شاید کچھ بھی خرچ نہیں ہے

اور یہ جنگ کہ جس میں کچھ ایسی نظموں کا مال غنیمت مل جاتا ہے
جس پر اچھی خاصی عمر گزر جاتی ہے

لیکن مصنوعی دردوں سے کچھ نہیں ہوتا
پیارے دوست

خلقت تیری نپی تلی باتوں کے اونچے دروازوں میں
رمز بھری گمبھیر اور گہری آوازوں میں

ایک نئے آدم کے جنم کی خاطر
تیری نظموں اور عقیدوں کے بستر کے طواف میں ہے

لیکن تیرے سب جذبوں کی شدت
اک بیاہ کے بے رنگ لحاف میں ہے

تو جو زرد کتابوں کے جیسے پر جانے کب سے
کیسے کیسے آسنوں میں

جھوٹی شہوت کے وعدے میں لیٹا ہے
اپنے شعری ہذیانوں کے الہاموں میں ہکلاتا ہے

نئے جنم کے بشارت کے اس باؤلے غش میں
گو نئے خوابوں کی رانوں میں نگلاتا ہے