کیسے کیسے نام لکھے تھے
وقت نے ماہ و سال کے رخ پر
طوفانوں نے پالا مارا
سارے ہو گئے تتربتر
صیقل کر کے رکھنا چاہا
ہم نے کچھ ناموں کو بچا کر
عمر کی موجیں بہا لے گئیں
سارے لعل اور سارے جواہر
طرز خرام کے پھول کھلے تھے
آتی جاتی راہ گزر پر
آج ہے صرف غبار کا پردہ
کیسی منزل کیسا منظر
دھجی دھجی بکھر رہی ہے
تنی ہوئی احساس کی چادر
کچھ حرفوں کی مدھم سی لو
کانپ رہی ہے لرز لرز کر
خوشبو اپنی کھو بیٹھا ہے
سب شعروں کا مشک اور عنبر
صورت اپنی بدل چکے ہیں
عہد عقیدے مسجد منبر
کیسے خالی ہاتھ کھڑے ہیں
شاہ وزیر امیر گداگر
اجڑی خواب و خیال کی دنیا
اپنے گھروں میں سب ہیں بے گھر
کیوں کر جوڑیں اپنے ٹکڑے
ہار گئے ہیں سارے رفوگر
خونی بادل گہرے گہرے
چھٹے نہیں ہیں برس برس کر
اور زمینیں آنکھیں موندے
مست ہوئی ہیں لہو پی پی کر
ایک طلسمی کھیل رچا ہے
جانے کون ہے یہ جادوگر
نظم
ایک طلسمی کھیل
زہرا نگاہ