EN हिंदी
ایک سوال | شیح شیری
ek sawal

نظم

ایک سوال

نیاز حیدر

;

ایک لمحہ بھی اک زمانہ ہے
یاد رکھنا کہ بھول جانا ہے

لب و رخسار و گیسوئے خم دار
وہ لچکتی ہوئی باہیں وہ ہم آغوش بدن

وہ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی محفل وہ ارم
نغمہ و رقص فسوں کارئ فن

شہر آرائش جنت ہے زمیں پر کہ نہیں
یہ نمائش گہ تعمیر و ترقی یہ زمیں

زندگی محنت و قدرت کے عجائب
یہ مشینیں خود کار

دھات کے پرزے جو ہیں فرض شناس و ہشیار
اے خدا یہ ترے سیاروں کے رکھوالے

ایک لمحہ بھی اک زمانہ ہے
یاد رکھنا کہ بھول جانا ہے

آج موسم بہت سہانا ہے
جی کرے ہے کہ جان دے ڈالیں

آج موسم بہت سہانا ہے
کٹ گئے قاتلوں کے ہات کہیں

پائی محکوم نے نجات کہیں
بادشاہت زمیں پہ دے ماری

چھین لی ہے عنان مختاری
ہر طرف انقلاب کے آثار

ہیں کہاں پرچم شہ خوں خوار
رشک جمشید فخر اسکندر

قید محلوں میں یا کہ ملک بدر
ڈگمگاتا ہے تخت شاہانہ

شہریاروں کا ختم افسانہ
ان گنت بجلیاں گریں لیکن

چار تنکوں کا آشیانہ ہے
اے خدائے ابد خدائے ازل

تیرے گھر میں پہنچ گئی ہلچل