EN हिंदी
ایک سب آگ ایک سب پانی | شیح شیری
ek sab aag ek sab pani

نظم

ایک سب آگ ایک سب پانی

دانیال طریر

;

ہمارے غم جدا تھے
قریۂ دل کی فضا آب و ہوا

موسم جدا تھے
شام تیرے جسم کی دیوار سے چمٹی ہوئی تھی

مجھ کو کالی رات کھاتی تھی
تجھے آواز دیتی تھی ترے اندر سے اٹھتی ہوک

مجھ کو بھوک میری روح سے باہر بلاتی تھی
تجھے پاؤں میں پڑتی بیڑیوں کا روگ لاحق تھا

مجھے آزادی پہ شک تھا
تجھے اپنوں نے اپنے گھیر کا قیدی بنایا تھا

مجھے بے رشتگی نے ذات کا بھیدی بنایا تھا
مسلسل لیکھ پر گردش میں رہنا ناچنا

تیرا وطیرہ تھا
مری اک اپنی دنیا تھی

مرا اپنا جزیرہ تھا
کوئی دریا تھا اپنے بیچ

ہم دونوں کنارے تھے
الگ دو کہکشائیں تھیں

جہاں کے ہم ستارے تھے