وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی
دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی
سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں
ایسے ہر منظر کے بعد اک سناٹا چھا جاتا ہے
یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے
سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج کا لہجہ ہے
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے
ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں
وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
نظم
ایک رخ
افتخار عارف