اجنبی دوست، بہت دیر میں رویا ہے تو!
اپنی آواز کے سناٹے میں بیٹھے بیٹھے۔
اور آنکھوں سے ابھر آئی ہے سیال فغاں
اپنی مجبوریاں، لاچاریاں بکھراتی ہوئی
ریگ ہستی کے نظامات سے جھنجھلاتی ہوئی۔
اے اداسی کی فضاؤں کے پرندے، یہ بتا!
اپنے انفاس کے تاریک بیابانوں میں
اور تو کیا ہے زمانوں کی سیاہی کے سوا،
اور تو کیا ہے سرابوں کی گواہی کے سوا،
رات میں سرد ستاروں کی جماہی کے سوا۔
ترے چہرے کی زمیں پر جو نمی ہے اب بھی
دل کی سب بستیاں اس میں ہی ٹھٹھر جاتی ہیں،
اپنے سہمے سے کناروں پہ تھپیڑے کھا کر
اب بھی دنیا کے سسکنے کی صدا آتی ہے۔
اجنبی دوست، اے مانوس مقدر کے مکیں
اپنی آواز کے سناٹے میں بیٹھے بیٹھے
یہ بھی کیا کم ہے کہ تو اپنے جواں اشکوں سے
اپنے حالات کے دامن کو بھگو سکتا ہے
اس جہاں میں کہ جہاں سوکھ گیا ہے سب کچھ
یہ بھی کیا کم ہے کہ تو آج بھی رو سکتا ہے!
نظم
ایک روتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر
ریاض لطیف