وہی دریا کنارے
روز اپنی بانس کی بنسی لیے بیٹھا ہوا وہ شخص
کتنی بے نیازی سے
ہر اک لمحہ کو اپنی خوش دلی سے داد دیتا ہے
کہ جس کے روئے روشن پر قناعت مورچھل جھلتی ہوئی موتی لٹاتی ہے
سحر تا شام لہروں سے وہ اپنی بات کہتا ہے
ہواؤں کی مدھر سرگوشیوں پر کھلکھلاتا ہے
پرندوں کے سہانے چہچہوں پر جھوم اٹھتا ہے
کسی آواز کی آہٹ پہ کجری گنگناتا ہے
مگر اس کی نظر ڈوری کی ہر جنبش پہ رہتی ہے
کوئی مچھلی پھنسی تو اس کے سینے میں
کئی رنگوں کی صبحیں دفعتاً مرپاش ہوتی ہیں
مگر ایسا بھی ہوتا ہے
کسی دن ہاتھ خالی اپنے گھر وہ لوٹ جاتا ہے
کئی معصوم آنکھیں جب سوالی بن کے اٹھتی ہیں
وہی مانوس سی اک مسکراہٹ اس کے چہرے کی
کسی ننھی سی مچھلی کی طرح اک جست لیتی ہے
شکستہ جھونپڑے میں ایک بجلی کوند جاتی ہے
نظم
ایک ریاضت یہ بھی
عنبر بہرائچی