EN हिंदी
ایک پرانی نظم | شیح شیری
ek purani nazm

نظم

ایک پرانی نظم

صادق

;

کچھ نہیں جانتا
کس طرح آ گیا

میں ہوا کے بھیانک طلسمات میں
کوکھ سے جن کی تولید پاتے ہیں بالشتیے

روز و شب ہر گھڑی
مجھ میں در آتے ہیں بے اجازت

کھلی دیکھ کر کھڑکیاں اور در
موت اور زندگی ان کا ایک کھیل ہے

کیونکہ ہر ایک بالشتیہ
موت سے قبل جاں سونپ جاتا ہے

اپنے کسی جانشیں (دوسرے) کو
دوسرا تیسرا

اور پھر تیسرا چوتھے بالشتیے کو
اس طرح مرتے جیتے نراکار بالشتیوں اور ان کے

طلسمات کا سلسلہ
جنم سے آج تک سوچتا آ رہا ہوں

کتنا مجبور ہوں چاہتا ہوں
مگر ان طلسمات کا انت میں دیکھ سکتا نہیں

اور ان دیکھے بھی ان کا سر خفی مجھ کو معلوم ہے
ان طلسمات کا ایک قیدی ہوں میں

ان سے بچھڑا تو لا ریب مر جاؤں گا
یہ جو بکھرے تو میں خود بکھر جاؤں گا

۔۔۔اور پھر اپنا منہ کھول کر
مجھ کو سالم نگل جائے گی

ایک ڈائن زمیں