مہر بہ لب ویران دریچے دروازے سنسان
دور پہاڑوں کی چوٹی پر شاہی گورستان
نیم کی شاخوں میں الجھی ہے کنکوے کی کانپ
دیواروں پر رینگ رہا ہے شکستگی کا سانپ
سڑکیں رہگیروں پر ڈالیں ٹھنڈی سرد نگاہ
شرم عریانی سے چپ ہے بوڑھی شہر پناہ
وقت کے قدموں کی آہٹ دیتی ہے سنائی ایسے
سناٹے میں بھٹک رہی ہوں بیتی صدیاں جیسے
اک اک لمحہ ڈھونڈ رہا ہے کھوئی ہوئی رعنائی
دوڑ رہا ہے پیچھے کو با وصف شکستہ پائی
راہ میں لیکن کچھ دیواریں آن کھڑی ہوئی ہیں
دیواریں جن پر ننگی سنگینیں گڑی ہوئی ہیں
ان سے سر ٹکراتے لمحوں کے یہ پگلے سائے
مملکت فردا کا رستہ کون انہیں دکھلائے
نظم
ایک پرانا شہر
مخمور سعیدی