EN हिंदी
ایک پراسرار صدا | شیح شیری
ek pur-asrar sada

نظم

ایک پراسرار صدا

بلراج کومل

;

اس کے ہنسنے اور رونے کی صدا
ہو گئی تھی

کچھ دنوں سے ایک سی
اب وہ اکثر دن میں سوتا

اور شب بھر جاگتا
گھومتا تھا شہر کی سڑکوں پہ تنہا صبح تک

اک صدا
سونی فضاؤں میں لگاتا

گونج سنتا
پھر لگاتا

چلتا جاتا
بے تکاں

لوگ اب سوتے تھے راتوں کو نہ شاید جاگتے
اک عجب عالم تھا

سنتے تھے جونہی آواز اس کی دور سے
وہ جو مصروف فغاں تھے سوچتے

ہے کوئی بد بخت ان جیسا
کسی ٹیڑھے سفر میں

بے اماں
اور جو سرشار تھے موج ضیا کی راہ میں

وہ بھی ظرف سرخوشی کی داد دیتے تھے اسے
ایک سناٹا ہے اب ہر رہگزر پر چار سو

جاں بحق، کچھ روز گزرے
ہو گیا وہ شخص

یہ افواہ ہے
کیا عجب آفت مکینوں کے سروں پر آ پڑی

اپنے غم کی اور خوشی کی
اس صدا کے فیض سے

مل گئی تھی ان کو اک پہچان سی
کیا ہوا یہ حادثہ کیسے ہوا

وہ بھی آخر کھو گئی