EN हिंदी
ایک پھول سا بچہ | شیح شیری
ek phul sa bachcha

نظم

ایک پھول سا بچہ

زہرا نگاہ

;

ایک دن تھکا ماندہ
ایک شام بے معنی

ایک رات حیراں سی
میرے ساتھ یہ تینوں

میرے گھر میں رہتے ہیں
ایک دوسرے سے کم

اپنے آپ سے ہم لوگ
بات کرتے رہتے ہیں

الجھے سلجھے لمحوں کی
وقت چادریں بن کر

ہم کو ڈھانپ دیتا ہے
دیکھتا نہیں مڑ کر

جلد جلد کٹتا ہے
ہم جو دیکھنا چاہیں

وہ نظر چراتا ہے
ایک پھول سا بچہ

بے خبر نڈر سچا
میرے گھر کے کمروں میں

آ کے غل مچاتا ہے
منجمد خموشی کو

توڑتی ہنسی اس کی
اس طرح بکھرتی ہے

جیسے ٹھہرے پانی میں
کوئی کنکری پھینکے

عکس جھوم جھوم اٹھے
موج موج لہرائے

ایک دن تھکا ماندہ
جاگ جاگ جاتا ہے

ایک شام بے معنی
حرف حرف سجتی ہے

ایک رات حیراں سی
آنکھ موند لیتی ہے