جہاں کو پھر بتائیں گے
سمندر بھاپ بن کر کس طرح اڑتے ہیں آنکھوں سے
بدن شق ہوتے ہوتے کس طرح پاتال بنتے ہیں
نفس کے شہر کیسے ریزہ ریزہ خاک ہوتے ہیں
مساموں سے ابل کر آسماں کیسے سلگتے ہیں
عدم مشروم بن کر کیسے خلیوں سے ابھرتا ہے
کہ اکھڑی ارتقا کی بوند میں سرشار یہ پتلے
ہمارے دو جہانوں کا مقدر سوچنے والے
انہیں بونوں کی خاطر لائے ہیں اب ہم سکوت اپنا
کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں
کہ لرزاں ارتقا کے رخ پہ پردہ ڈالتے ہیں ہم
کہ اب بھی روح سے ہیر و شیما کھنگالتے ہیں ہم
نظم
ایک نیوکلیئر نظم
ریاض لطیف