خزاں کی آہٹیں سن رہی ہو
میرا جسم بجھ رہا ہے
میری سانسوں کے پھول پتے
مرجھا رہے ہیں
میں وقت کی شاخ سے
نہ جانے کب ٹوٹوں
اور بکھر جاؤں
میری کتابیں باتیں تصویریں
کسی مائکرو فلم آڈیو یا ویڈیو کیسٹ پر
یا کسی سیڈی میں
محفوظ کر لو
دیکھو اب بھی وقت ہے
مگر وقت بہت کم ہے
مجھے آخری بار چھو لو
میرے خیال کے سینے پر سر رکھ کر
کمپیوٹر سے میری فلاپی نکال کر
اپنے بلاؤز کے گریبان میں ڈال لو
نہ جانے کب
یہ پہاڑ جنگل شہر سمندر پاتال خلا
جنہیں میں نے جی بھر کے دیکھا تک نہیں
لکیروں میں ڈھل کر
گھٹتے ہوئے دائروں
ایک ایسے نقطے میں سمٹ جائیں
جو اپنے ہی مرکز کی گہرائی میں ڈوب جائے
نظم
ایک نظم تمہارے نام
مصحف اقبال توصیفی