وہ آتی ہے
روز میرے بہت قریب
مجھے سہلاتی ہے
گدگداتی ہے
اٹھو۔۔۔ اٹھو۔۔۔
میں حیرت اور خوشی سے
اسے دیکھتی ہوں
تم کب آئیں؟
ابھی۔۔۔ ابھی تو آئی ہوں۔۔۔
وہ میرے سینے پر اپنا سر رکھ دیتی ہے
میرے پستانوں سے کھیلتی ہے
میرے ہونٹوں کو چوستی ہے
میری ناف کے نیچے
بہت نیچے۔۔۔
میری سانس اوپر کی اوپر رہ جاتی ہے
میں کنواریوں کی طرح
تلملاتی ہوں
بل کھاتی ہوں
وہ مجھے اٹھاتی ہے
میرے کپڑے ایک ایک کر کے اتارتی ہے
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
ہنستی ہے
اٹھو۔۔۔
میں بڑبڑاتی رہتی ہوں
ایسی ہی بے سدھ
حیرت سے اور خوشی سے
اٹھو۔۔۔
وہ میری گردن میں بانہیں ڈال کر
کہتی ہے
وہ مجھے دور سے دیکھتی ہے
اور کینوس پر مری مادر زاد
تصویر بناتی ہے
میں بے سدھ پڑی رہتی ہوں
اس ڈر سے کہ کہیں وہ چلی نہ جائے
میں اسے ڈبونا چاہتی ہوں
ایک ہی وار پر اس پر چڑھ دوڑنا
اس پر بلبلا کر حملہ کرنا
میں بھی چاہتی ہوں۔۔۔ اسے ایسے ہی
اپنی گرفت میں لے آؤں
لیکن اس سے پہلے کہ
میں حرکت کروں
وہ چھم چھم کرتی
کھڑکی یا دروازے سے باہر
بھاگ جاتی ہے
میں بے سدھ
حیرت اور خوف سے
اور ملامت سے
آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی
رہتی ہوں
وہ چلی جاتی ہے
روز ایسا ہی ہوتا ہے
نظم
ایک نظم روز آتی ہے
عذرا عباس