ہزار جھلملاتے پیکر
رستے پانی میں آڑی ترچھی
جھمکتی بوچھار بن گئے
ہر ایک دیوار اور در سے
شجر شجر سے
نکل نکل کر
کھلی سڑک پر
لہکتے گاتے
قدم قدم پر دیے جلاتے
حسین نظموں میں ڈھل رہا ہے
نہ جانے کیا ہو
اگر یہ عالم تمام اپنا نقاب الٹ دے
نہ جانے کیا ہو جو سارے اسرار کھل چکے ہوں
یہی بہت ہے
کبھی کبھی جھلملاتے پیکر
اٹھا کے گھونگھٹ جھلک دکھا دیں
نظم
ایک نظم
قاضی سلیم