ہوا چلی ہوا چلی
گھنے طویل جنگلوں کو نیند سے جگا چلی
ادائے خامشی کو گدگدا چلی
خزاں کی زرد سیج سے کسی کی یاد
آنکھیں ملتی اٹھ کھڑی
چراغ درد لے کے سرد ہاتھ پر
بھٹک کے پات پات پر
تھکی تھکی سے روشنی لٹا چلی
میں اجنبی ہوں جس کے سر پہ دھوپ کا کڑا سرا
گرا ہوں راہ بھول کر
گئے زمانے کے مہیب کنڈ میں
پھنسا پڑا ہوں پنچھیوں پشوؤں کے پیاسے جھنڈ میں
یہ بے بسی تو کھا چلی
بساط دل پہ نقشۂ شکست دم بچھا چلی
مگر وہ مند مند مسکراتی موت
بھر کے جام زندگی
مجھے نہ اب پلائے گی
کہ آج اس کی یاد بھی
چہار سمت دوریوں کی تیرگی سجا چلی
ہر اک نشاں مٹا چلی
ہوا چلی
نظم
ایک نظم
نذیر احمد ناجی