ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے
جوتوں کی جوڑی سے
یا قبر سے جو بارش میں بیٹھ گئی
یا اس پھول سے جو قبر کی پائینی پر کھلا
ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی
چینٹیوں کو جائے نماز کے نیچے
اور لڑکیوں کو مری آواز میں
مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر بنا لیا ہے
نظم کا بھی ایک گھر ہوگا
کسی جلا وطن کا دل یا انتظار کرتی ہوئی آنکھیں
ایک پہیہ ہے جو بنانے والے سے ادھورا رہ گیا ہے
اسے ایک نظم مکمل کر سکتی ہے
ایک گونجتا ہوا آسمان نظم کے لیے کافی ہوتا ہے
لیکن یہ ایک ناشتہ دان میں با آسانی سما سکتی ہے
پھول آنسو اور گھنٹیاں اس میں پروئی جا سکتی ہیں
اسے اندھیرے میں گایا جا سکتا ہے
تہواروں کی دھوپ میں سکھایا جا سکتا ہے
تم اسے دیکھ سکتی ہو
خالی برتنوں خالی قبضوں اور خالی گہواروں میں
تم اسے سن سکتی ہو
ہاتھ گاڑیوں اور جنازوں کے ساتھ چلتے ہوئے
تم اسے چوم سکتی ہو
بندرگاہوں کی بھیڑ میں
تم اسے گوندھ سکتی ہو
پتھر کی ماند میں
تم اسے اگا سکتی ہو
پودینے کی کیاریوں میں
ایک نظم
کسی بھی رات سے تاریک نہیں کی جا سکتی
کسی تلوار سے کاٹی نہیں جا سکتی
کسی دیوار میں قید نہیں کی جا سکتی
ایک نظم
کہیں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے
بادل کی طرح
ہوا کی طرح
راستے کی طرح
باپ کے ہاتھ کی طرح
نظم
''ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے''
ثروت حسین