قدم دو قدم چل کے تھک سا گیا ہے
ہمارے مقدر کا انساں۔۔۔
درختوں نے اپنے کئی سارے پژمردہ پتے
ہواؤں کے گھر سے بلائے ہیں
تھکے ہارے رہرو پہ سایہ کریں
اس کی خاطر شکستہ دلوں کا کوئی گیت
سب مل کے گائیں!
زمیں نے کہا ہے، یہ انساں نہیں تھا
وگرنہ یوں رستے میں اپنے ارادے کی ہتک نہ کرتا
یوں اپنے ہی سائے سے بے کار خائف نہ ہوتا
نہ منزل سے گھبرا کے رستے میں گرتا
یوں اپنے گھرانے کی توہین کرتا!
ہمارے مقدر کا انسان منزل بہ منزل
ستاروں سے گزرا ہے، بزم نجوم و قمر جگمگا کر
نشان قدم بن گئی ہے
شکستہ دلوں کا صنم بن گئی ہے
خدائی کے پھیلے ہوئے سلسلے ہیں حرم بن گئی ہے
نظم
ایک نظم
جیلانی کامران