تم مجھے پہن سکتے ہو
کہ میں نے اپنے آپ کو
دھلے ہوئے کپڑے کی طرح
کئی دفعہ نچوڑا ہے
کئی دفعہ سکھایا ہے
تم مجھے چبا سکتے ہو
کہ میں چوسنے والی گولی کی طرح
اپنی مٹھاس کی تہہ گھلا چکی ہوں
تم مجھے رلا سکتے ہو
کہ میں نے اپنے آپ کو قتل کر کے
اپنے خون کو پانی پانی کر کے
آنکھوں میں جھیل بنا لی ہے
تم مجھے بھون سکتے ہو
کہ میری بوٹی بوٹی
تڑپ تڑپ کر
زندگی کی ہر سانس کو
الوداع کہہ چکی ہے
تم مجھے مسل سکتے ہو
کہ روٹی سوکھنے سے پہلے
خستہ ہو کر بھربھری ہو جاتی ہے
تم مجھے تعویذ کی طرح
گھول کر پی جاؤ
تو میں کلیساؤں میں بجتی گھنٹیوں میں
اسی طرح طلوع ہوتی رہوں گی
جیسے گل آفتاب
نظم
ایک نظم اجازتوں کے لیے
کشور ناہید