بظاہر اجنبی ہو تم
مگر بوسوں کی بے کیفی بتاتی ہے
کہ یہ وہ زہر ہے چکھا ہے جس کو بارہا میں نے
نہ جانے جذب ہے میرے لبوں میں کتنے رخساروں کی کڑواہٹ
یہ سب خمیازہ ہے
اس بوسۂ اول کا دل بھولا نہیں جس کی حلاوت کو
میں اس کو بارہا سمجھا چکا ہوں
ماضیٔ مرحوم کا ماتم تو کر سکتے ہیں، واپس لا نہیں سکتے
مگر دل، دل ہے اس کو کون سمجھائے
یقیں ہے آج تک اس لمحۂ اول کی اس کو بازیابی کا
اسیر وہم ہے اتنا
گماں ہونے لگا ہے ریگ صحرا پر بھی پانی کا
اسے دیوانگی کہہ لو
فراز تشنگی سمجھو
نظم
ایک نظم
گوپال متل