آسماں سر پر اگانے میں مرا حصہ نہیں ہے
یہ زمیں بھی کل تلک جس گائے کے سینگوں ٹکی تھی
وہ مری کوئی نہیں تھی
اور اب جس بے بدن ننگے خلا میں تیرتی ہے
وہ خلا بھی میں نہیں ہوں
ہر طرف پھیلی ہوئی بے رنگ چہرہ زندگی کو
میں بھلا کیا ڈھالتا
گوشت کا جو لوتھڑا لکھا ہے میرے نام
وہ بھی اور کا ڈھالا ہوا ہے
وہ پرانے دن بھلے تھے جب سبھی کچھ چل رہا تھا
نام اس کا کام اس کا
وہ مگر میرے اجالے بڑے سے غار میں غارت ہوا ہے
ان گنت الزام کیلوں میں ٹنگا میرا بدن
قطرہ قطرہ چیختا ہے
اور سناٹا مزوں میں گنگناتا پھر رہا ہے

نظم
ایک نظم
فضل تابش