EN हिंदी
ایک نظم | شیح شیری
ek nazm

نظم

ایک نظم

انیس ناگی

;

کس تصور کے رقص میں گو
تری صدا کا وجود مجھ کو ملا نہیں ہے

کسی کتاب کہن میں چلتی عظیم دانش کے نقش پا میں
ترے بدن کا نشان مجھ کو ملا نہیں ہے

میں چار سمتوں سے پوچھتا ہوں
عناصروں کے تغیروں سے

میں سلطنت کے نجومیوں سے
یہ پوچھتا ہوں

کہ کون ہے تو
جو میرے خوابوں کے سلسلے میں

مرے تفکر کے راستوں میں
نئے تنازعوں کا بیج بو کر چلی گئی ہے

کہاں کہ مجھ کو پتا نہیں ہے
زمیں کے نقشے پہ آبناؤں کے ساتھ چل کر

کبھی صدا سے بھی تیز چلتے جہاز کے دائرے دریچے سے سر لگا کر
میں ارغوانی شراب تھامے

دبیز شیشوں کی دوربیں سے
نگاہ کی آخری حدوں تک ترے تصور کو دیکھتا تھا

مگر خلا کے سوا کہیں کچھ نظر نہ آیا
یہ سوچتا ہوں کہ میں تصور کے آئینے میں

سلیس باتوں کے پیرہن میں
تجھے اتاروں تو کس طرح میں

جو زندگی کے تضاد میں ہے
جو آرزو کے فساد میں ہے

جو تیری خاطر تمام دنیا کی عشرتوں سے فرار ہو کر
نئے تمدن کے زائچے میں

نئی علامت کے دائرے میں ترے قدم کے نزول کو پھر
تلاش کرنے کی کشمکش سے گزر رہا ہے

چراغ جس کے دماغ کا
اک مراقبت میں سلگ رہا ہے