میں
حیات مہمل کی جستجو میں
سفر زمانے کا کر چکا ہوں
میں اک جواری کی طرح ساری بساط اپنی لٹا چکا ہوں
میں آدمی کے عظیم خوابوں کی سلطنت بھی گنوا چکا ہوں
نہ جیب رخت سفر کا تحفہ لیے ہوئے ہے
نہ ذہن میرا کسی تصور کا دکھ اٹھانے
کسی محبت کا بوجھ سہنے کے واسطے اختلال میں ہے
میں فاتح کی طرح چلا تھا
جو راستے میں ملے مجھے
وہ تیغ میری سے کٹ گئے تھے
میں زائروں کے لباس میں
قرض خوں بہا کا اتارنے، سر منڈا کے یوں ہی نکل گیا تھا
کہ لوٹ آؤں گا
ایک دن
پھر بتاؤں گا میں حیات مہمل کا راز کیا ہے؟
یہ خواب ہے یا خیال ہے؟
میں حیات مہمل کی جستجو میں
سفر زمانے کا کر چکا ہوں
میں بے نوا بے گیاہ اور بے ثمر شجر ہوں
جو سو زمانوں کی دھول میں بے بصر بھکاری کی طرح
اپنی ہی آستیں میں لرز رہا ہے!
نظم
ایک نظم
انیس ناگی