کون سوچے کہ سورج کے ہاتھوں میں کیا ہے
ہواؤں کی تحریر پڑھنے کی فرصت کسی کو نہیں
کون ڈھونڈے
فضاؤں میں تحلیل رستہ
کون گزرے سوچ کے ساحلوں سے
خواہشوں کی سلگتی ہوئی ریت کو
کون ہاتھوں میں لے
کون اترے سمندر کی گہرائیوں میں
چاندنی کی جواں انگلیوں میں
انگلیاں کون ڈالے
کون سمجھے مرے فلسفے کو
جلد ہی یہ سفر ختم ہونے کو ہے
کسی بے نام و نشاں لمحے میں دل چاہتا ہے
دوریاں بس مری مٹھی میں سمٹ کر رہ جائیں
ڈوریاں خیمہ تنہائی کی کٹ کر رہ جائیں
نظم
ایک نظم
اسعد بدایونی