EN हिंदी
ایک مہرے کا سفر | شیح شیری
ek mohre ka safar

نظم

ایک مہرے کا سفر

جاوید اختر

;

جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جینا ہے

بڑی چالاکی سے جینا ہوگا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساط ہستی

اور وہ معمولی سا اک مہرہ ہے
ایک اک خانہ بہت سوچ کے چلنا ہوگا

بازی آسان نہیں تھی اس کی
دور تک چاروں طرف پھیلے تھے

مہرے
جلاد

نہایت ہی سفاک
سخت بے رحم

بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں لیے

پوری بساط
اس کے حصے میں فقط مات لیے

وہ جدھر جاتا
اسے ملتا تھا

ہر نیا خانہ نئی گھات لیے
وہ مگر بچتا رہا

چلتا رہا
ایک گھر

دوسرا گھر
تیسرا گھر

پاس آیا کبھی اوروں کے
کبھی دور ہوا

وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا

گو کہ معمولی سا مہرہ تھا مگر جیت گیا
یوں وہ اک روز بڑا مہرہ بنا

اب وہ محفوظ ہے اک خانے میں
اتنا محفوظ ہے اک خانے میں

اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آ سکتے

اس کے اک ہاتھ میں ہے جیت اس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے