EN हिंदी
ایک منظر کی خاموشی | شیح شیری
ek manzar ki KHamoshi

نظم

ایک منظر کی خاموشی

ذیشان ساحل

;

بہت دور
شہر سے باہر

شاید کسی اور شہر میں
ایک کمرہ ہے

اس کی ساری کھڑکیاں
صبح سے کھلی ہوئی ہیں

کوئی نہیں ہے جو انہیں بند کر دے
یا اس گرد کو صاف کر دے

جو دیوار پر لگے پورٹریٹ کو
دھندلا کر رہی ہے

ہوا نے گزرتے ہوئے
کاغذوں کو پیلا کر دیا

لوہے کی کرسی پر بیٹھ کے
اب کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا

رات گئے سنائی دینے والی
ٹرین کی آواز نہیں سنتا

شاید جاتے جاتے میز پر
کسی نے ڈکشنری کو کھول کر رکھ دیا ہے

سارے لفظوں کو کمرے میں بکھیر دیا ہے
بہت جلد یہ بھی چلے جائیں گے

کمرے میں آتی جاتی چڑیا کے ساتھ
اب وہاں صرف چڑیا ہے

ایک منظر کی خاموشی کو
کبھی کبھی ختم کرنے

یا ہمیشہ باقی رکھنے کے لیے