EN हिंदी
ایک لمحہ | شیح شیری
ek lamha

نظم

ایک لمحہ

کیفی اعظمی

;

جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو
سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں

خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھنچ آتا ہے
دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں

پھول کیا شگوفے کیا چاند کیا ستارے کیا
سب رقیب قدموں پر سر جھکانے لگتے ہیں

ذہن جاگ اٹھتا ہے روح جاگ اٹھتی ہے
نقش آدمیت کے جگمگانے لگتے ہیں

لو نکلنے لگتی ہے مندروں کے سینے سے
دیوتا فضاؤں میں مسکرانے لگتے ہیں

رقص کرنے لگتی ہیں مورتیں اجنتا کی
مدتوں کے لب بستہ غار گانے لگتے ہیں

پھول کھلنے لگتے ہیں اجڑے اجڑے گلشن میں
تشنہ تشنہ گیتی پر ابر چھانے لگتے ہیں

لمحہ بھر کو یہ دنیا ظلم چھوڑ دیتی ہے
لمحہ بھر کو سب پتھر مسکرانے لگتے ہیں