اک لڑکی تھی چھوٹی سی
دبلی سی اور موٹی سی
ننھی سی اور منی سی
بالکل ہی تھن متھنی سی
اس کے بال تھے کالے سے
سیدھے گھنگریالے سے
منہ پر اس کے لالی سی
چٹی سی مٹیالی سی
اس کی ناک پکوڑی سی
نوکیلی سی چوڑی سی
آنکھیں کالی نیلی سی
سرخ سفید اور پیلی سی
کپڑے اس کے تھیلے سے
اجلے سے اور میلے سے
یہ لڑکی تھی بھولی سی
بی بی سی اور گولی سی
ہر دم کھیل تھا کام اس کا
شاداں بی بی نام تھا اس کا
ہنستی تھی اور روتی تھی
جاگتی تھی اور سوتی تھی
ہر دم اس کی اماں جان
کھینچا کرتی اس کے کان
کہتی تھیں مکتب کو جا
کھیلوں میں مت وقت گنوا
امی سب کچھ کہتی تھی
شاداں کھیلتی رہتی تھی
اک دن شاداں کھیل میں تھی
آئے اس کے ابا جی
وہ لاہور سے آئے تھے
چیزیں ویزیں لائے تھے
باکس میں تھیں یہ چیزیں سب
خیر تماشا دیکھو اب
ابا نے آتے ہی کہا
شاداں آ کچھ پڑھ کے سنا
گم تھی اک مدت سے کتاب
کیا دیتی اس وقت جواب
دو بہنیں تھیں شاداں کی
چھوٹی ننھی منی سی
نام تھا منجھلی کا سیماں
گڑیا سی ننھی ناداں
وہ بولی اے ابا جی
اب تو پڑھتی ہوں میں بھی
بلی ہے سی اے ٹی کیٹ
چوہا ہے آر اے ٹی ریٹ
منہ ماؤتھ ہے ناک ہے نوز
اور گلاب کا پھول ہے روز
میں نے ابا جی دیکھا
خوب سبق ہے یاد کیا
شاداں نے اس وقت کہا
میں نے ہی تو سکھایا تھا
لیکن ابا نے چپ چاپ
کھولا باکس کو اٹھ کر آپ
اس میں جو چیزیں نکلیں
ساری سیماں کو دے دیں
اک چینی کی گڑیا تھی
اک جادو کی پڑیا تھی
اک ننھی سی تھی موٹر
آپ ہی چلتی تھی فر فر
گیندوں کا اک جوڑا تھا
اک لکڑی کا گھوڑا تھا
اک سیٹی تھی اک باجا
ایک تھا مٹی کا راجا
شاداں کو کچھ بھی نہ ملا
یعنی کھیل کی پائی سزا
اب وہ غور سے پڑھتی ہے
پورے طور سے پڑھتی ہے
نظم
ایک لڑکی شاداں
حفیظ جالندھری