ایک لڑکی نے آئینہ دیکھا
آئینے میں کھلے ہوئے تھے پھول
آئینے میں چراغ جلتے تھے
آئینہ ایک رہ گزر تھا جہاں
خواب خوابوں کے ساتھ چلتے تھے
آئینے میں بنا ہوا تھا باغ
باغ میں شام ہونے والی تھی
(شام کے پھیلتے اندھیرے میں
لڑکیاں باغ میں نہیں جاتیں)
آئینے میں نہ تھا کوئی دریا
آئینے میں نہ تھا کوئی جنگل
آئینے میں نہ تھا کوئی صحرا
آئینے میں نہ تھا کوئی بادل
آئینے میں بس اک سمندر تھا
(لڑکیاں جس سے ڈرتی رہتی ہیں)
اور سمندر کی نیلگوں تہہ میں
ایک لڑکی نے آئینہ دیکھا
آئینے میں کھلے ہوئے تھے پھول
آئینے میں چراغ جلتے تھے
آئینہ ایک رہ گزر تھا جہاں
خواب خوابوں کے ساتھ چلتے تھے
نظم
ایک لڑکی نے آئینہ دیکھا
ذیشان ساحل