دیار شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں
سحر دم جھٹپٹے کے وقت راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں ناٹک ٹولیوں میں ان کے ڈیرے میں
تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے سونی راہوں میں
کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں
برہنہ پاؤں جلتی ریت یخ بستہ ہواؤں میں
گریزاں بستیوں سے مدرسوں سے خانقاہوں میں
کبھی ہم سن حسینوں میں بہت خوش کام و دل رفتہ
کبھی پیچاں بگولہ ساں کبھی جیوں چشم خوں بستہ
ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا
پرندوں کی طرح شاخوں میں چھپ کر جھولتا مڑتا
مجھے اک لڑکا آوارہ منش آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے یوں لگتا ہے جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہم زاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں
اسے ہم راہ پاتا ہوں یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
خدائے عز و جل کی نعمتوں کا معترف ہوں میں
مجھے اقرار ہے اس نے زمیں کو ایسے پھیلایا
کہ جیسے بستر کم خواب ہو دیبا و مخمل ہو
مجھے اقرار ہے یہ خیمۂ افلاک کا سایہ
اسی کی بخششیں ہیں اس نے سورج چاند تاروں کو
فضاؤں میں سنوارا اک حد فاصل مقرر کی
چٹانیں چیر کر دریا نکالے خاک اسفل سے
مری تخلیق کی مجھ کو جہاں کی پاسبانی دی
سمندر موتیوں مونگوں سے کانیں لعل و گوہر سے
ہوائیں مست کن خوشبوؤں سے معمور کر دی ہیں
وہ حاکم قادر مطلق ہے یکتا اور دانا ہے
اندھیرے کو اجالے سے جدا کرتا ہے خود کو میں
اگر پہچانتا ہوں اس کی رحمت اور سخاوت ہے
اسی نے خسروی دی ہے لئیموں کو مجھے نکبت
اسی نے یاوہ گویوں کو مرا خازن بنایا ہے
تونگر ہرزہ کاروں کو کیا دریوزہ گر مجھ کو
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسارا ہے
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہے میرے قبضہ میں
جز اک ذہن رسا کچھ بھی نہیں پھر بھی مگر مجھ کو
خروش عمر کے اتمام تک اک بار اٹھانا ہے
عناصر منتشر ہو جانے نبضیں ڈوب جانے تک
نوائے صبح ہو یا نالۂ شب کچھ بھی گانا ہے
ظفر مندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر
کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکرانا ہے
وہ خامہ سوزی شب بیداریوں کا جو نتیجہ ہو
اسے اک کھوٹے سکے کی طرح سب کو دکھانا ہے
کبھی جب سوچتا ہوں اپنے بارے میں تو کہتا ہوں
کہ تو اک آبلہ ہے جس کو آخر پھوٹ جانا ہے
غرض گرداں ہوں باد صبح گاہی کی طرح لیکن
سحر کی آرزو میں شب کا دامن تھامتا ہوں جب
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چاہا تھا اک خاشاک عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے جھوٹ ہے دیکھو میں زندہ ہوں
نظم
ایک لڑکا
اختر الایمان