ساتھ اگر تم ہو تو پھر ہم
ہنستے ہنستے چلتے چلتے
دور آکاش کی حد تک جائیں
کالی کالی سی دلدل سے
تپتا تانبا پھوٹ رہا ہو
مکڑی کے جالے کا فیتہ
کاٹ کے ہم اس باغ میں جائیں
جس میں کوئی کبھی نہ گیا ہو
کوکنار کے پھول کھلے ہوں
بھونرے ان کو چوم رہے ہوں
پتھر سے پانی چلتا ہو
میں پانی کا چلو بھر کر
جب ماروں چہرے پہ تمہارے
پہلے تم کو سانس نہ آئے
اور پھر میرے ساتھ لپٹ کر
ایسے چھوٹے دھار ہنسی کی
جیسے چشمہ پھوٹ رہا ہو
نظم
ایک خواب
خورشید رضوی