پرانی قبریں ادھورے چہرے اگل رہی تھیں
ادھورے چہرے پرانی قبروں کی سرد زا بھربھری اداسی جو اپنے اوپر گرا رہے تھے
تو عارض و چشم و لب کی تشکیل ہو رہی تھی
وہ ایک کن جو ہزار صدیوں سے ملتوی تھا اب اس کی تعمیل ہو رہی تھی
قبور خستہ سے گاہ خیزاں و گاہ افتاں، ہجوم عصیاں
ہر ایک رشتہ سے، ہر تعلق سے ماورا تھا
گئے دنوں کی محبتوں کو، رقابتوں کو، صعوبتوں کو بھلا چکا تھا
ہجوم اپنے ازل کے مقسوم کے مطابق
خود اپنے انجام کے جنوں میں کشاں کشاں راہ کاٹتا تھا
زمانہ اپنے جمال کو ترک کر چکا تھا
جلال اس کے بزرگ چہرے کی ہر شکن میں دبک گیا تھا
بزرگ چہرہ، ہمیشگی کا قدیم چہرہ
ازل سے اس دن کا منتظر تھا
کہ کب یہ انبوہ خاکساراں
خود اپنے اعمال کے کھنکتے ہوئے سلاسل میں غرق آئے
گناہ برتے ثواب پائے

نظم
ایک خواب
بلال احمد