ہواؤں کے تعاقب میں
میں اک تتلی سے ٹکرا کے زمیں پر گر پڑا ہوں
پروں کی گدگداہٹ سے
مرے ماتھے سے خوں بہنے لگا ہے
مجھے یکسانیت سے خوف آتا ہے
زیادہ دیر اک ہی کیفیت میں زندہ رہنا کتنا مشکل ہے
پرانے موسموں کی نوحہ خوانی میں
نئے موسم کی خواہش پیدا ہوتی ہے
میں اپنے حلق کے اندر کنواں تعمیر کرتا ہوں
میں اڑ سکتا ہوں
لیکن میری بے تابی کو جانے کون سی موج ہوا
آغوش میں لے گی
میں تھک کے بیٹھ سکتا ہوں
مگر ساری زمیں میرے لیے اوندھی پڑی ہے
مری سوچوں کے مرکز سے نکلتے راستوں پر
میرے نقش پا کے بے ترتیب خاکوں میں
اب آنکھیں اگ گئیں ہیں
ہوا کے ہاتھ میں اک لوح میرا خواب نامہ ہے
ہواؤں کے تعاقب میں اگر میں مر گیا
تو کون میری لحد پر اس لوح کو کتبہ بنائے گا
نظم
ایک کتبے کی تلاش میں
قاسم یعقوب